اہم خبریں

clean-5

ہماری سوشل پروفائلز

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

سوشل پروفائلز

Misc

Technology

کومنٹس

خانیوال کا تعارف (تاریخ)

خانیوال کا تعارف تاریخ

خانیوال صوبہ پنجاب پاکستان کا ایک شہر ہے ،اور ضلع خانیوال کا صدر مقام ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 3141053 ہے۔2017 کی مردم شماری کے مطابق شہری آبادی  165038 ہے۔ خانیوال 1903 میں آباد ہوا اور 1985 میں ضلع کی حیثیت حاصل کی ضلع ملتان کی دو تحصیلوں کبیر والہ اور مياں چنوں کو ملا کر بنایا گیا۔ اب خانیوال کی چار تحصلیں ہیں خانیوال، کبیر والا، مياں چنوں اور جہانیاں اس کے قریبی اضلاع میں ملتان،وہاڑی، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ اور ساہیوال شامل ہیں۔خانیوال میں 81 فیصد پنجابی 11 فیصد سرائیکی اور 7 فیصد لوگ اردو بولنے والے آباد ہیں۔خانیوال میں 17 پولیس اسٹیشن، 20 نیشنل بنک برانچز، 7 کپڑے کی فیکڑی، 1 چینی بنانے کی فیکڑی، 71 کاٹن فیکڑیاں اور 26ٹیلی فون ایکسچینزز ہیں۔ خانیوال کا پوسٹل کوڈ 58150 ہے



ذاتیں


خانیوال میں اہم ذاتیں         آرائیں، نیازی ،افغان ، سیئول ، دڈوانا ، کمبوہ ، ماتیانہ ، گجر ، دولتانہ ، ساہو ، راجپوت (رانا) ، راجپوت ڈھودھی ، اعوان ، شیخ ، جٹ ، بوچا ، [نکیانا سیال] ، سیال  ، بھٹی ، بلوچ ، کھوکھر ،میو ،سولگی (جٹ) اور تورو ،ہیں۔



تاریخ



تقسیم سے پہلے کا خانیوال بھی بہت دلچسپ تھا۔ پورے شہر میں سولہ بلاک تھے۔ ہر چار بلاک کے بیچ میں ایک چوک ہوا کرتا تھا، جس میں فیض کے اسباب، کنوؤں اور عبادت گاہوں کی صورت نظر آتے تھے۔

شہر میں گوردواروں، مسجدوں اور مندروں کے ساتھ ساتھ ولیم رابرٹس کا بنایا ہوا گرجا گھر بھی تھا، مگر خانیوال کے لوگ، خدا تک پہنچنے کے اور طریقے بھی جانتے تھے، سو کبھی کٹیا میں آنے جانے والے جوگی گر کی بات بتا دیتے اور کبھی قلی بازار میں جال کے درخت کے نیچے بیٹھا چپ سائیں کوئی رمز کھول دیتا۔

شام ڈھلتے ہی پرنٹنگ پریس والے جگدیش صاحب اور کوٹ آلہ تھنگ والے سندر سنگھ کلب میں آ جاتے اور خوب محفلیں جماتے۔ سورج ڈوبنے سے تھوڑا پہلے، وزیر چندر رام لعل آتے جو یونینسٹ گورنمنٹ کے بارے میں بات چیت کرتے اور کوڑا رام ملتے جو وقت کے گزرنے کا بھرپور نوحہ کہتے۔

مسلمانوں کی اکثریت کہنہ خانیوال میں رہا کرتی تھی مگر نئے شہر میں بھی ان کے گنے چنے گھر موجود تھے، جہاں سے ملک محمد حسین بھی ان محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ دور، گول باغ میں تیرتھ داس اور ٹیک چند شام کی سیر بھی کرتے اور نوجوانوں کی شکائتیں بھی کرتے۔

موسموں کے اس ہیر پھیر میں جب بھی بہار آتی تو شہر سے باہر ایک میلہ بھی سجا کرتا جسے چکروں والا میلہ کہا جاتا تھا۔

پاکستان بنا تو خانیوال بھی اسی غلط فہمی کی لپیٹ میں تھا کہ چند برس گزرنے پر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ساتھ جو ٹھہرا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کو جانا پڑا۔

سب سے پہلے کوٹ بیربل کی آبادی سے لوگ جانا شروع ہوئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے جسونت نگر اور بھینی سادھو رام بھی ویران ہو گیا۔ صاف لگتا تھا کہ کوئی طاعون ہے جو آہستہ آہستہ موت کی مانند اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔

سب سے آخر میں کراڑوں کا محلہ خالی ہوا۔ اس کے بعد مخدوم پور اور خانیوال کے راستے میں ہندووں اور سکھوں کے سب گاؤں ایک ایک کر کے بنجر ہو گئے۔

فساد کے دوران خانیوال کے مسلمان نوجوانوں نے ایک جتھہ بنایا جو ان ہندو اور سکھ لڑکیوں کو بازیاب کرواتا جنہیں بلوائی اٹھا کر لے جاتے۔ ثقلین کے ابا اس وقت تئیس سال کے تھے اور اس جتھے کا حصہ تھے۔ اب وہ رندھی ہوئی آواز میں اکثر بتاتے ہیں کہ جانے والے گھروں کی چابیاں تک ساتھ لے کر گئے تھے، کیا خبر رات گئے واپسی ہو پھر کون ہمسایوں کو جگائے اور کون چابیاں مانگے۔ جب انہونی کو دس بارہ برس گزر گئے تو شہر کے پرانے مکین ایک ایک کر کے آئے اور اپنی مال متاع اور یادیں سب لے گئے۔

ان دس پندرہ سالوں میں ایک مذہبی فساد، ایک مارشل لا کو ملا کر کافی کچھ ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود لے جانے کے لیے کافی کچھ بچ بھی گیا تھا۔

سرحد پار سے کچھ آدرشی اور کچھ مہاجر، خواب اور مرہم ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے یہاں بھی پہنچے۔ شہر کا ریلوے اسٹیشن اتنا بڑا تھا کہ بہت سے لوگ شہر کو بھی اسٹیشن جیسا ہی بڑا سمجھ کر اتر گئے اور پھر واپس نہیں گئے۔

انہی آدرشیوں میں سے ایک سونی پت کے محمد نقی بھی تھے۔ پرانوں میں لکھا ہے کہ مہابھارت کے بعد جب کورووں اور پانڈووں میں صلح ہوئی تو یدھشٹر نے جو پانچ شہر دریودھن سے مانگے تھے ان میں سے سون پرستھ بھی ایک تھا۔

اب سون پرستھ کا مطلب تو سونے کا شہر تھا، مگر صدیوں کی گرد پڑتے پڑتے یہ سون پت اور بعد میں سونی پت ہو گیا۔

شروع شروع میں جب خانیوال میں ریت اڑتی تو محمد نقی کو اپنا سونی پت بہت یاد آتا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی مشقت سے اسی مٹی کو سونا بنا لیا۔ اب کنکٹی کٹ سے لاہور اور بوسٹن سے اسلام آباد تک آباد ان کی ساری اولاد یہی سمجھتی ہے کہ سونی پت بھی خانیوال کا ہی کوئی پرانا نام ہے۔

پاکستان بننے کے بعد خانیوال کے خال وخد تیزی سے بدلنے لگے۔ گورودوارہ بازار کا نام اکبر بازار رکھ دیا گیا اور نانک بازار کو لیاقت بازار کہا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ کنوؤں کی جگہ نل لگ گئے اور نلوں کی جگہ مسجدیں بن گئیں۔

پرائمری سکول سردار پور میں ماسٹر لالہ رام کشن کی جگہ مولوی غلام رسول آ گئے اور مرضی پورہ کے قریب جودھ سنگھ کا جو باغ تھا وہ ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی پرانا اکھاڑہ بھی اجڑ گیا۔

جودھ پور اور شام کوٹ کے محلے یوں وقت اوڑھ کر سوئے کہ جیسے تھے ہی نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے پورے شہر میں کسی کو یاد تک نہیں کہ جیون داس کون تھے اور بخشی رام کے خاندان کی اس شہر سے کیا نسبت تھی۔

جب شہر اتنا بدل گیا تو گول باغ کیسے قائم رہتا سو اس کے پھولوں والے تختے بھی برابر ہوئے اور اب یہاں ڈی سی او آفس ہے جس میں پاکستان کا جھنڈا لہراتا ہے۔

جہاں اب بانسوں والا بازار اور لیاقت بازار ملتے ہیں، پہلے یہاں ایک مسجد ہوا کرتی تھی جس کے اردگرد بڑی بڑی زنجیریں ٹنگی تھیں۔

شہر کی آبادی بڑھی تو سائیکل والوں کی گاڑی والوں سے شکایات بھی بڑھ گئیں۔ 1958 میں مسجد کو گرا کر یہاں چوک بنا دیا گیا۔ پہلے پہل تو زنجیروں کی مناسبت سے اس چوک کو سنگلاں والا چوک کہا جاتا تھا، مگر پھر دیوبندیوں کا اثر بڑھا تو چوک کا نام چوک یا رسول اللہ پڑ گیا۔

کچھ سال بعد اہل حدیث لوگوں کو اصلاح عقیدہ کا شوق ہوا تو انہوں نے 'یا' پہ اعتراض کیا اور چوک میں ہر طرف چاروں خلفاء کے نام لکھوا دئے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود جب بھی کوئی مسافر تانگے والے سے پوچھتا ہے کہ یہ کون سی جگہ ہے تو وہ ہنس کر جواب دیتا ہے، "سنگلاں والا چوک"۔

تھوڑا دور میاں چنوں کا شہر سانس لیتا ہے۔ کہتے ہیں میاں چنوں ایک ڈکیت ہوا کرتے تھے مگر پھر ہمیشہ کی طرح کسی صاحب فیض کی نظر ہوئی۔ بہاءاللہ صاحب کی رفاقت کا میاں چنوں پہ اتنا اثر ہوا کہ نہ صرف وہ چوری سے تائب ہوئے بلکہ خلق خدا کی خدمت پہ بھی آمادہ ہو گئے۔ اس کایا کلپ کی یاد میں اب ہر ساون کی نو دس گیارہ تاریخ کو یہاں ایک میلہ لگتا ہے۔

خانیوال اور کبیر والا میں یوں تو کوئی حد فاضل نہیں، بس ادھی والا نام کی ایک جگہ ہے جو کسی زمانے میں دونوں شہروں سے ایک جیسی دوری پہ تھی۔ دونوں آبادیوں کو ملانے والی سڑک کے آس پاس بھانت بھانت کے کارخانے لگ گئے ہیں جن میں پہننے کی کپاس، کھانے کی پولٹری اور پینے کا دودھ تیار ہوتا ہے۔

خانیوال کے نشانات ختم ہونے سے پہلے ہی کبیروالا کے آثار شروع ہو جاتے ہیں۔ اپنی ہریاول کے سبب دس صدیوں تک منڈی رہنے والا یہ شہر اب بابا پیر کبیر کی معرفت آباد ہے۔ بہت دیر تک ملتان کا حصہ رہنے والے کبیروالہ کی تاریخ 1889 کے تھانے، 1900 کے ڈاک خانے اور دار العلوم دیوبند سے مزین ہے۔

یہیں سے ایک سڑک رائے پور کو جاتی ہے، جہاں کھرانہ صاحب نام کے ایک پٹواری ہوا کرتے تھے۔ ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو گردآوریوں اور انتقال کی فردوں میں الجھے پٹواری کے گمان تک میں نہ تھا ایک دن یہ رائے پور، اس کے بیٹے ہرگوبند کی معرفت دنیا میں پہچانا جائے گا۔

ڈاکٹر ہر گوبند کھرانہ رائے پور سے نکلے اور پنجاب یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے سیدھے امریکا پہنچے۔ آپ نے جینیات کے شعبے میں اپنا اور دیس کا نام خوب روشن کیا اور نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے

شخصیات

مولانا طارق جمیل ، اسلامی اسکالر
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف

سید فخر امام ، سابق۔ اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف

نشاط احمد خان ڈاہا ، ممبر پنجاب صوبائی اسمبلی
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف

افتخار انجم کرکٹر
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف 


میجر (ر) ریاض حیات خان ڈاہا مرحوم ، (سابق ایم این اے خانیوال اور فلپائن میں سفیر
ظہور احمد خان ڈاہا مرحوم ، (سابق ممبر پنجاب صوبائی اسمبلی
سید حسین جہانیا گردیزی ، ایک پاکستانی سیاستدان ہیں ، جو اس وقت پنجاب کے
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف 

 وزیر برائے مینجمنٹ اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

غلام حیدر وائیں ، سابق۔ وزیر اعلیٰ پنجاب
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف 


تصور حیات ، پاکستانی سائنسدان۔
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف 

 
ہرگوبند کھورانا ، میڈیسن کے لئےنوبل انعام یافتہ
خانیوال کا تعارف
خانیوال کا تعارف 


بریگیڈرمحمد یعقوب الٰہی ، ریماؤنٹ ویٹرنری اینڈ فارمس کور ، پاک فوج

میجر (ر) ریاض حیات خان ڈاہا مرحوم ، (سابق ایم این اے خانیوال اور فلپائن میں سفیر
ظہور احمد خان ڈاہا مرحوم ، (سابق ممبر پنجاب صوبائی اسمبلی

Vehari Info

(وہاڑی شہر کا تعارف (تاریخ

 
وہاڑی ایک شہر ہے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وہاڑی شہرضلع وہاڑی کا
 صدر مقام ہے۔ یہ پاکستان کا 62 واں بڑا شہر ہے۔ وہاڑی ایک تاریخی شہر ہے جو کہ ملتان سے 100 کلومیٹر (62 میل) دور ہے۔ وہاڑی ملتان سے دہلی روڈ پر واقع ہے جسے ہندوستانی مسلمان شہنشاہ شیر شاہ سوری نے تعمیر کیا تھا۔
وہاڑی 135 میٹر (443 فٹ) کی اونچائی پر واقع ہے۔ 


مقام


یہ ملتان کے علاقائی دارالحکومت سے 96 کلومیٹر (60 میل) ، کراچی سے 956 کلومیٹر (594 میل) ، لاہور سے 300 کلومیٹر (190 میل) ، فیصل آباد سے 218 کلومیٹر (135 میل) ، بہاولپور سے 119 کلومیٹر (74 میل)،  حاصل پور سے 61 کلومیٹر (38 میل) ، میلسی سے 41 کلومیٹر (25 میل) ، کچہ کھوہ سے 46 کلومیٹر (29 میل) ، بورے والا سے 36 کلومیٹر (22 میل) ، لڈن سے 27 کلومیٹر (17 میل) ، 78 کلومیٹر ( عارف والا سے 48 میل) ، پاکپتن سے 112 کلومیٹر (70 میل) ، اور دریائے ستلج کے شمال میں تقریبا 37 کلومیٹر (23 میل) دور واقع ہے۔ جوکہ پنجاب کے علاقے کے پانچ دریاؤں میں سے جنوبی ہے۔ ہیڈ اسلام  ورکس پر لڈن وہاڑی نہر لڈن کے قریب ہے۔ جس میں ندی کے دونوں کناروں کو آبپاشی کا پانی مہیا کیا جارہا ہے ، جس میں صحرائے چولستان کے اوپری کنارے بھی شامل ہیں۔

زراعت


وہاڑی کو دوسری فصلوں کے علاوہ کپاس کا شہر بھی جانا جاتا ہے۔ وہاڑی میں کپاس پروسیسنگ کے کئی کارخانے اور کپاس کے بیجوں کے تیل تیار کرنے والے کارخانے  موجود ہیں۔ گنے کی کاشت اور پروسیسنگ بھی عام بات ہے۔ زرعی مصنوعات میں موسم گرما میں آم اور سردیوں میں امرود اور لیموں کے دیگر پھل شامل ہیں۔

وہاڑی میں موسم گرما انتہائی گرم ہے۔ اکتوبر اور فروری کے دوران موسم خوشگوار ہوجاتا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں  دسمبر سے فروری تک بمشکل تین ماہ رہ گیا ہے۔ گرمیوں کے دوران ، درجہ حرارت مستقل بنیادوں پر 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ وہاڑی میں سال بھر بارش ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں میں وہاڑی عام طور پر مصروف مون سون کے سیزن کے دوران بھی بارش کے لئے جدوجہد کرتے دیکھا گیا۔ جب بارش ہلکی ہوتی ہے تو زمین عام طور پر خشک اور خاک ہوتی ہے۔

تاریخ


وہاڑی ضلع ایک ایسا زرعی علاقہ تھا جس میں وادی سندھ کی تہذیب کے دوران جنگلات تھے۔ ویدک دور ہند آریان کی طرف سے خصوصیات کے ساتھ کمبوجس ، دارداس ، کیکائیاس ، مدراس ، پووراواس ، یودھیاس ، مالاواس اور کورس نے پنجاب کے قدیم علاقے پر حملہ کیا ،یہاں پر آباد ہوئے اور حکمرانی کی۔  331 قبل مسیح  میں سکندر نے اپنی 50،000 فوج کے ساتھ اچیمینیڈ سلطنت کو زیر کیا ،۔ وہاڑی پر موریہ سلطنت ، ہند یونانی سلطنت ، کوشان سلطنت ، گپتا سلطنت ، وائٹ ہنس ، کشانو-ہیفٹالائٹس اور شاہی ریاستوں کا راج رہا۔

 997عیسوی میں ، سلطان محمود غزنوی نے  اپنے والد سلطان سیبکتیگین کی قائم کردہ غزنوی سلطنت کا اقتدار سنبھال لیا۔ 1005 میں اس نے شاہیوں کو کابل میں فتح کرلیا اور اس کے بعد اس نے پنجاب کے علاقے پر فتح حاصل کی۔ دہلی سلطنت اور بعد میں مغل سلطنت نے اس خطے پر حکومت کی۔

مغل سلطنت کے زوال کے بعد ، سکھوں نے حملہ کرکے ضلع وہاڑی پر قبضہ کیا۔ برطانوی حکمرانی کے دور میں ضلع وہاڑی کی آبادی اور اہمیت میں اضافہ ہوا۔

ضلع وہاڑی ، ستلج پر سلیمانکی ہیڈ ورکس اور 1925 میں نیلی بار کالونی منصوبے کے ادارے سے پاکپتن نہر کی تعمیر کا نتیجہ ہے ، وہاڑی کو ستلج کے پانی کے نیلے رنگ کے اشارے بھی کہا جاتا ہے۔ وہاڑی ضلع کی قدیم تاریخ مبہم ہے۔ قدیم زمانے میں آبادی والے علاقوں کو دریائے ستلج کے کنارے ہی محدود رکھا گیا تھا۔ جہاں موسمی  کاشت کی اجازت تھی۔ جبکہ باقی علاقہ ایک وسیع سینڈی سکریپ اراضی پر مشتمعل تھا۔ جو کہ بہترین چراگاہوں پر سفر کرنے والے چرواہوں کا تھا۔ اکبر اعظم کے زمانے میں ریاست فتح پور کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس پر جویا خاندان کے فتح خان نے حکمرانی کی جس نے اپنے نام کی مناسبت سے شہر فتح پور  کا نام رکھا ۔ (فتح پور ابھی بھی میلسی کے جنوب میں 15 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے اور میلسی کا سب سے قدیم قصبہ ہے۔ اس کی کچھ آثار قدیمہ کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں۔)

یہاں کی زیادہ تر مسلم آبادی نے مسلم لیگ اور پاکستان تحریک کی حمایت کی۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد ، اقلیتی ہندو اور سکھوں نے ہندوستان ہجرت کی جبکہ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمان مہاجرین ضلع وہاڑی میں آباد ہوئے۔

ذاتیں


وہاڑی کی مرکزی ذاتیں آرائیں، جٹ ، دودھی راجپوت ، جویہ راجپوت ، شیخ ، بھٹی راجپوت ، بلوچ ، کھوکھر ، گجر ، سیال ، اعوان ،اور لنگڑیال ہیں۔

مئی 2002 میں ضلع وہاڑی میں سنی عسکریت پسند گروپ لشکر جھنگوی (ایل ای جے) اور مقامی شیعہ دیہاتیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے ہوئے۔ ایل ای جے کے ممبران، مقامی گاؤں میں ایک ممتاز مقامی شیعہ پر حملہ کرنے آئے تھے لیکن انہیں مقامی مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں ، ایل ای جے کے چاروں ممبران ہلاک ہوگئے ، جن میں ان کا رہنما ریاض بصرا بھی شامل تھا۔

تعلیم

گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول ، وہاڑی
شہر میں دو مکمل یونیورسٹی کیمپس اور مرد و خواتین کے لئے دو پوسٹ گریجویٹ کالج ہیں۔ کوماسٹس یونیورسٹی وہاڑی کیمپس 2009 سے ایم ایس اور بی ایس پروگرام پیش کررہی ہے۔ ورچوئل یونیورسٹی کیمپس 2001 سے وہاڑی میں کام کر رہی ہے۔ شہر میں بہت سے ہائر سیکنڈری اسکول اور نجی کالج شامل ہیں۔ ایجوکیشن یونیورسٹی چار سے زیادہ اساتذہ اور بہت سے شعبوں کے ساتھ  حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والا کیمپس ہے۔ کوماسٹس یونیورسٹی وہاڑی کیمپس پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے جو وزارت سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعہ مالی تعاون سے چلتی ہے۔ پاکستان کی معروف یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف زراعت فیصل آباد (یو اے ایف) ، بہاؤدین ذکریا یونیورسٹی ملتان ، یونیورسٹی آف ایجوکیشن اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا وہاڑی میں ایک ایک سب کیمپس بھی موجود ہے۔

ٹرانسپورٹ


وہاڑی ریلوے اسٹیش صوبے پنجاب کے صدر مقام  لاہور اور ملتان کے مابین ریلوے اور سڑک کے جنوبی متبادل راستے پر واقع ہے

ثقافت


وہاڑی کا راستہ مذہبی طور پر شہرت یافتہ شہر پاکپتن سے ہوتا ہوا لاہور جاتا ہے ، جہاں صوفی بزرگ فریدالدین گنجشکر دفن ہیں۔ سالانہ ہزاروں عازمین عرس کی تقریب کے لئے پاکپتن آتے ہیں جس میں ہر طرح کی خوشی شامل ہوتی ہے۔ سکھوں کے مقدس صحیفہ گرن گرنتھ صاحب میں اس کے کام سے انتخاب شامل ہیں۔ وہ عام طور پر "بابا فرید" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پاور ریڈیو ایف ایم 99 میں وہاڑی کے لئے ایک اسٹیشن موجود ہے۔

آب و ہوا


ضلع کی آب و ہوا گرمیوں میں گرم اور خشک اور سردیوں میں سرد ہوتی ہے۔ (2017) موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ 45سینٹی گریڈ اور کم سے کم درجہ حرارت 28سینٹی گریڈ   کے درمیان ہوتا ہے۔  سردیوں کے دوران ، درجہ حرارت 21 سینٹی گریڈ  اور 5سینٹی گریڈ  کے درمیان ہوتا ہے۔

شخصیات


صوفی دل محمد  (ولی اللہ)

وقار یونس، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی اور ہیڈ کوچ
سلیم شیروانی ، ہاکی کے کھلاڑی
محمد وسیم ، ہاکی پلیئر
چوہدری طاہراقبال (ایم این اے وہاڑی)
 
تہمینہ دولتانہ (ایم این اے وہاڑی)
میاں محمد ثاقب خورشید (ایم پی اے وہاڑی)

کوٹ اسلام کا مختصرتعارف


کوٹ اسلام ضلع خانیوال کی تحصیل کبیروالا میں ملتان جھنگ روڑ پر  دریا راوی کے کنارے پر واقع ایک  قصبہ ہیں۔ اس کا پرانا نام منسا مانگلانی ہے۔ 

کوٹ اسلام کے نزدیکی علاقے
 
عبدالحکیم،  باگڑسرگانہ،  قتالپور،  25پل،  اور بارہ میل ہیں
اس کی آبادی تقریبا دس ہزار ہے۔ یہاں ایک گیسٹ ہاوس بھی ہے جو عین دریا راوی کے ساتھ واقع ہے،مین آبادی کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے دیہات واقع ہیں،یہاں پر پانچ بڑی مساجد ہیں،
 
کوٹ اسلام کی مین آبادی  آرائیں،  قریشی،  مغل  اور  چند دیگر قوموں پر مشتمعل ہے۔ کوٹ اسلام کے اطراف میں دوسرے  بڑی قومیں آباد ہیں جن میں سیال، سید،  سرگانہ،  ہراج،  سہو، تھراج  اور راجپوت  قابل ذکر ہیں۔ کوٹ اسلام کے موجودہ چیرمین چوہدری محمد رفیق آرائیں اور واتس چیرمین مہر علی ہراج ہیں۔



 یہاں پر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کا قیام عمل میں آچکا ہے۔
 
ایک سپورٹس میدان بھی موجود ہے جو کہ کوٹ اسلام کے مین علاقے سے تھوڑا دور ہونے کی وجہ نہ قابل استعمال ہے۔

البتہ کوٹ اسلام تا حال ڈاکخانہ کی سہولت سے محروم ہے۔

یہاں کی زمین زرخیز ہے کپاس ،گنا،گندم،اور چاول یہاں کی
 مشہور فصلیں ہیں۔

مین روڈ یعنی جھنگ شورکوٹ روڈ کے علاوہ دو روڈ بھی نکلتے ہیں۔ ایک قتال پور روڈ اور دوسرا دارا محرم رو ڈ جو نیو ہیڈ سدھنائی کو جا ملتا ہے۔

تاریخ کے حوالے سے یہ جگہ حضرت سلطان عبد الحکیم کا مسکن بھی رہی ہے۔
 
کوٹ اسلام معاشرتی و سماجی لحاظ سے اس لیول تک پہنچ چکا ہے کہ اس کو تحصیل کا درجہ دے دیا جانا چاہئے۔
 
 آرائیں برادری میں  چوہدری عمران رفیق،  چوہدری مزمل،  چوہدری تنویر، چوہدری شہباز اور  چوہدری ابوبکرساقی  ابھرتا ہوا نام ہیں۔

 اس کے علاوہ   قریشی برادری میں ، جاوید قریشی،  عبدالحفیظ قریشی،  نوید قریشی،  ابھرتا ہوا نام ہیں۔