اہم خبریں

clean-5

ہماری سوشل پروفائلز

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

سوشل پروفائلز

Misc

Technology

کومنٹس

» » پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی ؟

’ٹیچر نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا رشتہ جس میں کوئی حد مقرر نہ ہو۔ میں نے کہا کہ سر آپ میرے استاد ہیں ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ انھوں نے کہا کہ تم مجھے استاد نہ مانو، کیونکہ میں تمہیں ایک طالب علم نہیں سمجھتا۔‘

’میں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر وہ کہنے لگے کہ وہ میرے ساتھ ایک فیزیکل ہونا چاہتے ہیں، اور یہ کہ میرا فِگر بہت پُرکشش ہے۔‘

میں نے ایک مرتبہ پھر انھیں کوئی جواب نہیں دیا، اور چند روز بعد مجھے یہ کچھ پڑھنے کو ملا:
 ’کیا آپ میرے ساتھ ہوٹل میں تین راتیں گزار سکتی ہیں؟‘
 ’کیا آپ میرے ساتھ سو سکتی ہیں؟‘ 
’کیا آپ میرے ساتھ بغیر کسی حد کے رشتہ قائم کر سکتی ہیں؟‘

یہ الفاظ ماہین (فرضی نام) نامی ایک طالبہ کے ہیں، جس کے ساتھ سن 2019 میں جنسی ہراسانی کا واقعہ پیش آیا۔

گذشتہ ماہ سوشل میڈیا پر کؑی طلبہ نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات پر اپنی آواز اٹھائی۔

اس کی شروعات لاہور گرامر سکول (ایل جی اس) سے تعلق رکھنے والی طالبات نے اپنی شکایات سے کی۔ جس کے بعد یکےبعد دیگرے کؑی تعلیمی اداروں کی طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی کرنا شروع کی۔

ان الزامات کو منظر عام پر آئے  ہوۓاب ایک ماہ گزر چکا ہے، اور کچھ سکولوں نے سامنے آنے والے الزامات کی بنیاد پر کئی اساتذہ کو برطرف بھی کیاہے۔ وہیں پولیس اور حکومت کو اس حوالے سے کوئی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی ہیں، اور وہ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیتے ہیں، کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے متاثرین آخر گئے تو گئے کہاں؟

کلثوم (فرضی نام) نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ ’میرے گھر والوں کو اور بالخصوص میرے والد کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔‘

استاد کے طالبات کو ’قابلِ اعتراض پیغامات


لاہور کے ہی ایک پراۓیویٹ تعلیمی ادارے سے منسلک ایک درجن سے زیادہ طالبات نے اپنے استاد پر سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات عاید کۓ ہیں۔ جنھیں مذکورہ استاد کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے۔

کچھ طالبات کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ جنسی ہراسانی کی نوعیت یقیناً ہر معاملے میں مختلف ہے، مگر طالبات کے بیانات کے بہت سے پہلو ایک دوسرے سے مماثلت بھی رکھتے ہیں۔
 
شاہین نامی ایک طالبہ کو مذکورہ استاد سے یہ پیغامات ایک طویل عرصے تک موصول ہوتے رہے، اور ان کے بقول وہ انھیں نظر انداز بھی کرتی رہیں۔

جبکہ دیگر دو طالبات کی فراہم کردہ معلومات سے یہ پتا چلا کہ مذکورہ استاد کی جانب سے مبینہ طور پر کالج میں جمع کرائے گئے فارمز سے ہی ان لڑکیوں کے موبال نمبر حاصل کیے گئے تھے۔

شازیہ (فرضی نام) نے موصول ہونے والے پیغامات میں سے ایک کا حوالہ دیا اور کہا
 ’وہ کہتے تھے باقی سب میری بہنوں کی طرح ہیں لیکن تم میرے لیے  بہت خاص ہو۔

انھوں نے کہا کہ کلاس میں یہی استاد ’اخلاق سے گرے ہوے اور فحش‘ لطیفے سناتے تھے، اِن طالبات سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ استاد اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کا تذکرہ بھی اپنی طالبات سے کرتے تھے۔


کلثوم نے بتایا کہ مذکورہ استاد کے اٹینڈنٹ نے بھی انھیں فون پر نازیبا پیغامات بھیجے اور انتظامیہ کو شکایت لگانے پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ نے فیس بک پر اپنی تصویر کیوں لگائی ہوئی ہے؟ وہ اسی کو دیکھ کر آپ کو یہ پیغامات بھیج رہے ہیں۔‘

یہ بتانا ضروری ہے کہ مبینہ ہراسانی کے واقعات تب پیش آئے جب یہ طالبات لگ بھگ 15 یا 16 سال کی تھیں، ان میں سے کئی نے اس وقت صرف اپنے قریبی دوستوں کو اس کے متعلق بتانا مناسب سمجھا۔

خود پر لگے ہراسانی کے متعدد الزامات پر مذکورہ استاد نے کہا ہے کہ یہ سب انھیں بدنام کرنے کی ایک ’سازش‘ ہے۔ اور انھوں نے اس سب کو ایک ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا، اس استاد کا مزید کہنا تھا کہ وہ ان طالبات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔

 جس نجی تعلیمی ادارے میں  یہ واقعات پیش آئے ان کے سربراہ سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ معاملہ بھی لاہور گرامر سکول میں سامنے آنے والی شکایات کی طرح قانونی اعتبار سے تو آگے نہ بڑھ سکا مگر ان شکایات نے معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی، ہراسانی سے متعلق قانون کے نہ ہونے اور انتظامیہ کی اس معاملے میں عدم دلچسپی پر بےتحاشہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔


 وہ کون سے عوامل ہیں جومتاثرین کو سامنے آنے سے روکتے ہیں؟

ہاورڈ بزنس ریویو کی سن 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق جنسی ہراسانی کے متاثرین ان معاملات کو انتقامی کارروائی کے خوف سے رپورٹ سے نہیں کرتے ہیں، اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطابق معاشرے میں رایج پدرشاہی نظام بھی ان متاثرین کو سامنے آنے سے روکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بارہا اپنی رپورٹس میں کی ہے۔

اکثر لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں ایسا کوئی شخص نہیں، جس سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی اور ہراسانی کے بارے میں کھُل کر بات کر سکیں، جبکہ سبھی نے والدین کو بتانے کے سوال پر نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’والدین نہیں سمجھیں گے۔‘

شازیہ نے اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے اس لیے نہیں بتایا کہ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

ان طالبات کے مطابق والدین کے سامنے ہراسانی تو دور کی بات اپنی جسمانی صحت کے بارے میں بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی پڑتی ہے، انھیں یہ خوف بھی تھا کہ ایسے واقعات کے بارے میں بتانے کے بعد والدین انھیں پڑھائی چھڑوا کر گھر ہی نہ بٹھا دیں۔

فیملی کاؤنسلر اور ماہرِ ذہنی امراض مریم سہیل تقریباً دس سال سے ریپ اور ہراسانی کے شکار افراد اور ان کے والدین کی تھیراپی کر رہی ہیں۔

والدین کے بارے میں انھوں نے بتایا- کہ ’یہ باتیں کچھ لوگوں کو کتابی لگتی ہیں، لیکن اگر آپ کے بچے کسی کے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں۔ دوسری جانب اگر وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کا اظہار کرتے ہیں، تو ان کی بات کو سننا اور سمھجنا آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘


مریم سہیل نے کہا کہ بچوں کو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی بیان کرنی ہی نہیں آتی۔ اس لیے وہ شرمندہ ہو کر اسے اپنی غلطی سمجھ لیتے ہیں، اور کسی سے بھی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق تھیراپی کے دوران اکثر بڑی عمر کے افراد بھی اسی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بچوں کے معاملے میں والدین کا کام ہے کہ وہ بچوں کے اچانک  خاموش ہوجانے کو یا ہر وقت کمرے میں، گھر میں بند رہنے کا کتنی جلدی اور کیا مطلب نکالتے ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اگر متاثرین کو سازگار ماحول نہ مل پائے تو انھیں کیا کرنا چاہیے، مریم سہیل کا کہنا تھا کہ ’اکثر، بلکہ زیادہ تر ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے آس پاس ایک ایسا انسان ضرور ڈھونڈیں جس کو آپ اپنی تمام تر باتیں بلاجھجک بتا سکتے ہوں، یہ شخص کوئی دوست بھی ہو سکتا ہے یا رشتہ دار بھی، جو آپ کو سمجھ سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، کہ بہت سے والدین میں ان معاملات پر خود بچوں سے بات کرنے کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی، اسی لیے بچوں کو گھر سے باہر مدد تلاش کرنے پڑتی ہے۔

یہ ایک سازش ہے


سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس جن میں طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کیا، اس کے نیچے درج کردہ کمنٹس میں چند ایسے بھی تھے جس میں ان طالبات کو بُرا بھلا کہا جا رہا  ہوتاتھا اور کچھ افراد ان کے الزامات کو ’جھوٹ کا پلندا‘ بھی قرار دے رہےہوتے تھے۔

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا سے جب ان شکایات کے حوالے سے پوچھاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بظاہر ایک سازش ہے جو اداروں کو بدنام کرنے کے لیے یا می ٹو مہم جیسی بین الاقوامی مہم کے پس پردہ مقاصد پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا سینکڑوں طالبات کا شکایات کے ساتھ سامنے آنا معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے۔ وزیر تعلیم پنجاب کا کہنا تھا کہ ’بالکل بھی نہیں، میری رائے میں یہ تعداد بہت بڑی ہے اور اس طرح کے بہت سے معاملات ہوں گے۔


کیا عدالتیں اور وکیل ایسے مقدمات کے لیے تیار ہیں؟


سازشی پہلو کے حوالے سے ایڈووکیٹ اسد جمال نے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، کہ ایسے مقدمات کو لڑنے کے لیے وکیلوں اور مقدمہ چلانے والوں میں جو تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے، اس کی بہت کمی ہے کیونکہ اس نوعیت کے الزامات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے اپنے پہلے مقدمے کی مثال دیتے ہوئے کہا، کہ کافی برس پہلے جب وہ پہلی مرتبہ ریپ کیس میں ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کے پاس مقدمے پر بات کرنے گئے، تو اس وقت اُن کے ہاتھ میں اسی مقدمے کی ابتدائی ایف آئی آر کی ایک کاپی موجود تھی۔

’جب میں نے انھیں ایف آئی آر نمبر بتایا تو مجھے مقدمہ چلانے والے افسر نے کہا کہ یہ تو وہی گھریلو ملازمہ کا کیس ہے نا؟ آپ کو پتا نہیں یہ کس قماش کی ہوتی ہیں؟‘

اسد جمال کے مطابق ’احساس ہونا تو دور کی بات ہے، ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جنسی ہراس یا ریپ کے مقدمات لڑنے کے لیے پاکستان میں وکیل ذہنی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں؟‘

ایڈووکیٹ اسد جمال کہتے ہیں کہ زیادہ تر طالبات کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کرنے یا اس بارے میں کم معلومات رکھنے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں۔ ’اس کے نتیجے میں ان طالبات پر ہتکِ عزت کا مقدمہ درج ہوجاتا ہے اور افسوس کے ساتھ ان مقدمات میں مبینہ زیادتی کرنے والوں کو زیادہ قانونی سہارا مل جاتا ہے۔


کیا تعلیمی اداروں میں ہراسانی سے متعلق شکایات کا کوئی نظام موجود ہے؟


بظاہر تو تعلیمی اداروں میں شکایات درج کرنے کے لیے انتظامیہ موجود ہوتی ہے، مگر طالبات سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ بالخصوص ہراسانی کے حوالے سے ان اداروں میں کوئی خصوصی کمیٹی نہیں بنائی گئی ہوتی۔

اس پر مزید بات کرتے ہوئے فرزانہ (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی شکایت درج نہیں کرائی، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ انتظامیہ نے الٹا مجھ پر ہی الزام لگانا ہے۔‘

کلاس میں کیے جانے والے فحش لطیفوں کے حوالے سے سمرا (فرضی نام) نے دیگر اساتذہ کو بھی اس حوالے سے بتایا مگر انھوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ’وہ تو مذاق کرتے ہیں اور وہ تمہارے استاد ہیں تو اس بات کو جانے دو۔‘

ابتدا میں بیان کیے گئے مبینہ ہراسانی کے واقعے کے حوالے سے کچھ طالبات نے ادارے کی انتظامیہ کو مطلع بھی کیا تھا، مگر ان کے بقول سکول انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

فرزانہ (فرضی نام) نےبتایا کہ ’جب کالج کو ایک اعلی تعلیم یافتہ استاد مل جاتا ہے، تو وہ اس قسم کی شکایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

جنسی ہراسانی کی شکایات سامنے آنے کے بعد لاہور گرامر سکول اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمینٹ سائنسز لاہور کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں نے اس نوعیت کی شکایات درج کرنے کا ایک باقاعدہ نظام وضح کیا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمہ کرنے کے بجائے سکول اور کالج کی سطح پر ایسی کمیٹیاں ہونی چاہییں، جن کے ذریعے بچوں کی شنوائی ہو سکے، اور مبینہ طور پر ہراسانی کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جا سکے۔

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ’یقینا بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے، مگر مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ جو پہلے سے وضح کردہ قوائد و ضوابط ہیں ان پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔


پاکستان میں کیا ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں؟


صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم  سے جب ہراسانی کی شکایات سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بڑا آسان ہے یہاں بیٹھ کر کہانی سنانا کہ ہم یہ کر رہے تھے وہ کر رہے تھے، دراصل کچھ نہیں ہو رہا تھا۔‘

صوبائی وزیر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’اس معاملے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی، اور اس متعلق قوانین بھی موجود نہیں۔‘

اگرچہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں۔ جیسے کہ 2010 کا وومن پروٹیکشن ایکٹ اور کام کی جگہ پر پیش آنے والی ہراسانی کی شکایت کے لیے ایک خصوصی محتسب کے دفتر کا قیام لیکن تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی زیادتی یا ہراسانی کے سد باب کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

البتہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے منسلک نگہت داد کہتی ہیں، کہ مقدمہ یا شکایت لگانے سے پہلے اس بات کا تعین بھی کرنا ضروری ہوتا ہے، کہ طالبہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے یا جنسی زیادتی کے۔

’اگر تو کوئی ٹیچر ایک کم عمر طالبہ سے ایسے پیغامات یا تصاویر شیئر کرے جو معیوب یا جنسی تعلق بنانے سے منسلک ہوں، تو وہ جنسی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔‘

دوسرا پہلو ریپ یا ہراسانی کے واقعے کے ثبوت اکٹھا کرنے سے منسلک ہے، اس بارے میں نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’یہ ممکن بنانا مشکل ہو جاتا ہے مگر کسی بھی طرح کا میسج، تصاویر، آڈیو نوٹ جو آپ کے پاس موجود ہوں ان کو سنبھال کر رکھیں۔ یہ چیزیں بہت کام آتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’ایسے کسی بھی واقعے کے رونما ہوتے وقت ویڈیو یا تصویر نہیں بنائی جا سکتی، لیکن اس وقت ٹائم کیا تھا، آس پاس کون کھڑا تھا، یہ یاد رکھنا یا اس کا ریکارڈ آپ کی گواہی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔‘

بعض اوقات متاثرین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کہ وہ ہراسانی کے واقعے کے اتنے عرصے بعد کیوں آواز اٹھا رہی ہیں۔

نگہت داد کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے قانون میں کوئی حد نہیں ہے، کہ آپ کب اپنی شکایت درج کریں۔ ’ہاں، یہ شرط ضرور ہے کہ کیا اس واقعے کے دوران آپ اس اکیڈمی یا سکول میں موجود تھیں یا نہیں، اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہم اس وقت ہراسانی کے قانون میں بھی مزید ترامیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ متاثرین کو فائدہ پہنچ سکے۔

پنجاب حکومت کا مجوزہ قانونی مسودہ کیا ہے ؟


پنجاب کے وزیر تعلیم نے لاہور گرامر سکول اور دیگر اداروں میں سامنے آنے والی شکایات کے بعد مختلف نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا اور سخت کارروائی کرنے کا عندیہ بھی۔

پنجاب کے وزیر تعلیم نے بتایا کہ ’جب یہ مسئلہ اٹھا تو ہم نے اس سے متعلق فوری اقدامات اٹھائے اور اب ہم اسی سے متعلق قانون سازی کرنے جا رہے ہیں۔‘

اس مسودے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ شخص جو تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی میں ملوث پایا جاتا ہے، اور اس کے خلاف جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس شخص کے حوالے سے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں:

  • دوبارہ تدریسی عمل کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہو
  •  دس لاکھ تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے
  • جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے
پنجاب کے وزیر تعلیم نے اپنی حکومتی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان واقعات کی روک تھام کے لیے جب تک آپ سخت سزائیں نہیں دیں گے، تب تک لوگ نہیں گھبرائیں گے۔‘

لیکن دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ میڈیا پر اٹھائے جانے والے کیسز کے بعد فوری رد عمل تو سامنے آ جاتا ہے، مگر کسی بھی قسم کی قانون سازی ایسی صورت میں جلد بازی میں کی جاتی ہے۔

فریحہ عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ قانونی عمل میں پڑنے سے گھبراتے ہیں اور یہ برحق بھی ہے، کیونکہ یہ ایک بہت طویل مدتی عمل ہوتا ہے اور سب کے پاس نہ ہی وہ مالی وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی جذباتی طور پر وہ تیار ہوتے ہیں۔‘

سخت سزاؤں کے بارے میں فریحہ کا کہنا تھا کہ ’زینب کیس میں بھی سخت سزا تو دے دی گئی، مگر اس کے بعد بھی کتنے واقعات سامنے آئے ہیں، حکومت اور معاشرہ صرف جذباتی بیانات پر مبنی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔‘

ایڈووکیٹ ماہم علی کئی برسوں سے چند سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کے نتیجے میں درج ہونے والے مقدمات پر کام کر رہی ہیں۔

جب حال ہی میں پنجاب میں طالبات نے اپنے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسروں پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تو ماہم نے پنجاب حکومت سے خود بات کی۔

انھوں نے وزیرِ تعلیم کو کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ اس وقت سکولوں کی سطح پر کوئی طریقہ کار وضح نہیں ہے، اس لیے وہ بغیر کسی تنخواہ کے ان کی مدد کر سکتی ہیں۔

لیکن ماہم نے بتایا کہ اسی دوران پنجاب کے وزیرِ تعلیم ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو پر آئے اور انھوں نے کہا کہ اگر گرلز سکولوں میں مرد ٹیچر نہ پڑھائیں تو جنسی ہراسانی اور زیادتی کے کیسز میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

ماہم نے کہا کہ ’یہ ایک بیوقوفانہ سوچ ہے اور اگر تو یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی پارٹی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے تو میرے خیال میں سب سے پہلے اس پر بات کرنی چاہیے کیونکہ مرد ٹیچر کو ہٹانے سے آپ ریپ یا جنسی ہراسانی کے کیسز کم نہیں کر سکتے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہے گی۔ (اردو نیوز ماہم سے متفق نہیں)‘

اس کے رد عمل میں مراد راس کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف ایک تجویز تھی، میں صرف ان سکولوں کی بات کر رہا تھا جہاں والدین بچوں کو اس مقصد سے بھیجتے ہیں کہ انھیں ایک مخصوص ماحول مل سکے۔

تواب کیا کیا جائے؟


پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے، جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے، اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نامی بین الاقوامی خیراتی ادارے نے سن 2018 میں ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی جو خواتین کے لیے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں، پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا۔

بنگلہ دیش میں سن 2009 میں ملک کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کروانے کے لیے سیل قائم کیے جائیں، جہاں طلبہ اپنی شکایات درج کروا سکیں لیکن بہت کم تعلیمی اداروں نے اس کو قائم کیا۔

سن 2019 میں نصرت جہاں رفیع نامی بنگلہ دیشی لڑکی کو تیل چھڑک کے زندہ جلا دینے کے واقعے کے بعد ہی اس عدالتی حکم پر عمل درآمد باقاعدہ طور پر شروع کروایا گیا تھا۔

نصرت جہاں نے اپنے سکول کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواست دی تھی۔

ان معاشروں میں جہاں پدرشاہی سوچ رچ بس گئی ہے وہاں ماہرین کے مطابق سوچ کی تبدیلی کسی بھی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی سے قدرے بہتر ہے۔

پاک اردو ٹیوب Princess of Pixel

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
جدید تر اشاعت
»
Previous
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں