اہم خبریں

clean-5

ہماری سوشل پروفائلز

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

سوشل پروفائلز

Misc

Technology

کومنٹس

» » کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چمگادڑوں کے سوپ والی ویڈیوز۔۔۔۔۔۔۔ سچائی کیا ہے؟

یہ وائرس نہ صرف چین اور بیرونِ ممالک تک پھیل چکا ہے بکہ اس سے متعلق غلط معلومات بھی اسی رفتار سے پھیل رہی ہیں

Bat


 چمگادڑوں کے سوپ والی ویڈیوز


کورونا وائرس کا آغاز کہاں سے ہوا، اس کے بارے میں ابتدا سے ہی لوگوں نے آن لائن قیاس آرائیاں کرنی شروع کر دیں تھیں، اس سب میں بڑا سبب ایسی ویڈیوز کا تھا جن میں ووہان (جہاں سے کورونا وائرس شروع ہوا) میں چینیوں کو چمگادڑوں کا سوپ پیتے دیکھایا گیا تھا۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں مسکراتی ہوئی چینی خاتون، پکا ہوا چمگادڑ کیمرے کو دکھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس کا ذائقہ (مرغی کے گوشت) جیسا ہے۔

یہ ویڈیو آن لائن صارفین کے غم و غصے میں اضافے کی وجہ بنی۔

کچھ صارفین تو اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار چینیوں کے کھانے پینے کی عادات کو قرار دیتے نظر آئے ہیں۔

لیکن اوپر بیان کی گئی ویڈیو سرے سے ووہان کی ہے ہی نہیں۔ اور آپ کو یہ جان کرشاید مزید حیرت بھی ہو کہ یہ چین میں بھی نہیں فلمائی گئی۔

سن 2016 میں یہ ویڈیو اس وقت فلمائی گئی جب مقبول بلاگر اور ٹریول شو کی میزبان مینگین وانگ، مغربی بحر الکاہل کے جزیرے پاؤلو کے دورے پر تھے۔

گذشتہ سال کے آخر میں ووہان میں نئے کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر وائرل ہو گیا۔

آن لائن سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد مس وانگ نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا ’میں صرف مقامی طرزِ زندگی متعارف کرانے کی کوشش کر رہی تھی، اور وہ نہیں جانتی تھیں کہ چمگادڑ ایک وائرس کیریئر ثابت ہو سکتا ہے، اس کے بعد سے ان کی ویڈیو ہٹا لی گئی تھی۔

اس وائرس کے بارے میں کہا جا رہا ہے، کہ یہ چین کے شہر ووہان میں جانوروں کی ایک غیر قانونی مارکیٹ سے پھیلا۔


اگرچہ اس وائرس کی وجوہات جاننے کے لیے چین میں کی جانے والی حالیہ تحقیق میں چمگادڑوں کا نام  بھی سامنے آیا ہے، لیکن چین میں چمگادڑ کا سوپ زیادہ پسند نہیں کیا جاتا اور اس وائرس کا اصل ماخذ جاننے کے لیے کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔

کیا اس وائرس کے پھیلاؤ کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہوئی تھی؟


امریکہ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد، ٹوئٹر اور فیس بک پر بے شمار ایسی سند یافتہ دستاویزات وائرل ہونا شروع ہوئیں، جنھیں دیکھنے سے ایسا لگا کہ ماہرین برسوں سے اس وائرس کی موجودگی سے باخبر تھے۔

ایسے الزامات کو سامنے لانے والے صارفین میں سے ایک سازشی تھیوریسٹ اور یوٹیوبر جارڈن سیتر تھے۔

ٹوٹر پر بنائے گئے جارڈدن کے تھریڈ جسا کہ اب تک ہزاروں بار ری ٹویٹ کیا جا چکا ہے۔ اس میں انھوں نے سرے، انگلینڈ کے پیربرائٹ انسٹی ٹیوٹ کا سن 2015 کا ایک لنک شیئر کیا ہے۔

اس دستاویز میں نظامِ تنفس سے منسلک بیماریوں کی روک تھام اور ویکسین کے طور پر ممکنہ استعمال کے لیے کورونا وائرس کا کمزور ورژن تیار کرنے کی بات کی گئی ہے۔

ویکسن کے خلاف مہم چلانے والوں اور سازشی فیس بک گروپس میں یہ لنک بڑے پیمانے پر شئیر کیا جا چکا ہے۔

بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن پیربرائٹ اور ویکسین کی تیاری دونوں کے لیے امداد دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا استعمال کرتے ہوئے سیتر نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے مالی امداد حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس وبا کو پھیلایا گیا۔

سیتر نے ٹویٹ کیا۔ کہ ’گذشتہ برسوں میں گیٹس فاؤنڈیشن نے ویکسین پروگراموں کو کتنے فنڈز دیے ہیں۔۔؟ کیا اس وائرس کا پھیلاؤ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔۔؟ کیا خوف بڑھانے کے لیے میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔۔؟‘

لیکن پیربرائٹ کی دستاویز کورونا وائرس سے متعلق نہیں، بلکہ یہ ایویئن انفیکشئس برونکائٹس وائرس کے متلعق ہے جس کا تعلق کورونا وائرس کے بڑے خاندان سے ہے جو مرغیوں کو متاثر کرتا ہے۔

اور جہاں تک بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے بارے میں قیاس آرائیوں کا تعلق ہے،تو پیربرائٹ کی ترجمان ٹریسا موغان نے بزفیڈ نیوز کو بتایا کہ فاؤنڈیشن نے برونکائٹس وائرس سے متعلق تحقیق کو کوئی مالی اعانت فراہم نہیں کی تھی۔

بائیو ویپن‘ جیسی سازشیں


آن لائن وائرل ہونے والا ایک اور بے بنیاد دعویٰ یہ بھی ہے، کہ یہ وائرس چین کے ’خفیہ بائیو ویپن پروگرام‘ کا حصہ تھا اور ہو سکتا ہے کہ یہ ووہان انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی سے لیک ہوا ہو۔

اس نظریے کو آگے بڑھانے والے بہت سے اکاؤنٹس واشنگٹن ٹائمز کے دو مضامین شیئر کرتے نظر آئے، جن میں ایک اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس کے سابقہ افسر کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے۔

تاہم ان دونوں مضامین میں اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکے، اور اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’اب تک اس بارے میں کوئی ثبوت یا اشارہ موجود نہیں ہے‘ جس سے یہ معلوم ہو سکے یہ کوئی لیک تھی۔

ان دونوں مضامین کو اب تک سینکڑوں اکاؤنٹس سے شئیر کیا جا چکا ہے اور انھیں پڑھنے والوں میں لاکھوں افراد شامل ہیں۔

 ڈیلی سٹار نے بھی ایسا ہی ایک مضمون شائع کیا جس میں یہ دعوی کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ’خفیہ لیب میں شروع ہوا ہو، تاہم بعد میں اس مضمون میں ترمیم کی گئی کیونکہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھے۔

اب تک کی گئی سرکاری تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے اس وائرس کا ماخذ شاید ووہان کے بازار میں جانوروں کی غیر قانونی خرید و فروخت ہے۔

یہ سوچا گیا ہے کہ یہ وائرس ووہان کے ہوانان سمندری غذا بازار میں غیر قانونی طور پر تجارت کی جانے والی جنگلی حیات سے پھیلا ہے۔



پاک اردو ٹیوب Princess of Pixel

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
جدید تر اشاعت
»
Previous
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں