اہم خبریں

clean-5

ہماری سوشل پروفائلز

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

سوشل پروفائلز

Misc

Technology

کومنٹس

» » انسان بندر سے وجود میں آیا۔۔ ڈارون سے ہزار سال پہلے کا مسلمان مفکر کون تھا۔۔؟

جاحظ  ڈارون سے ہزار سال پہلے کا مسلمان مفکر 

نظریۂ ارتقا انسان کی فکری تاریخ کے  بہترین نظریات میں سے ایک ہے، اور جتنا اس نے انسانی فکر پر اثرات ڈالے ہیں،، شاید ہی کسی اور نظریے نے ڈالے ہوں۔
عام طور پر چارلز ڈارون کو اس نظریے کا بانی سمجھا جاتا ہے، لیکن حیاتیاتی ارتقا کا تصور ہزاروں برس پہلے موجود تھا

ڈارون کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس نظریے کو اتنی پختہ منطقی اور سائنسی بنیادوں سے استوار کیا کہ یہ چند دیہاؤں کے اندر دنیا بھر میں تسلیم کر لیا گیا،، اور بعد میں حاصل ہونے والے ہزاروں بین الشعبہ جاتی شواہد اسے مضبوط سے مضبوط تر بناتے چلے گئے۔

ڈارون کے نظریے کے بنیادی ستون 2 ہیں، (نیچرل سیلیکشن' یا قدرتی انتخاب) اور (ڈیسینٹ ود ماڈی فیکیشن' یا ترمیم) کے ساتھ سلسلۂ نسب کا چلنا، جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے،، ڈارون نے اس نظریے کو بنیاد فراہم کی،، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرتی انتخاب کا ذکر ڈارون سے ایک ہزار سال قبل مسلمان مفکر جاحظ پیش کر چکے تھے جو ڈارون کے نظریے سے  کمال حیرت انگیز طور پر مشابہہ ہے،،

جاحظ کا پورا نام ابو عثمان عمرو بحرالکنانی البصری تھا۔ اور وہ 776 عیسوی میں بصرہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا خاندان بہت غریب تھا اور ان کے دادا ساربان تھے،، جاحظ خود بچپن میں بصرہ کی نہروں کے کنارے مچھلیاں بیچا کرتے تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بدصورت تھے جس کی وجہ سے لوگ ان کا مذاق اڑایا کرتے۔

عربی  میں لفظ جاحظ کا مطلب ایسا شخص ہے جس کے دیدے باہر کو نکلے ہوئے ہوں لیکن جاحظ نے ان رکاوٹوں کو آڑے نہیں آنے دیا اور تہیہ کر لیا کہ اپنے مخالفوں کو علم کی روشنی سے مات دینی ہے۔

اس مقصد کے لیے انھوں نے تعلیم حاصل کرنا جاری رکھا، وہ خود لکھنے پڑھنے کے ساتھ  فارغ وقت میں مختلف علمی محافل میں جا کر تقاریر اور مباحثے سنا کرتے،، اس زمانے میں معتزلہ فرقہ جڑ پکڑ رہا تھا اور ان کی محافل میں مذہبی مسائل، فلسفہ اور سائنس پر دھواں دھار بحثیں ہوا کرتی تھیں،، جاحظ نے باقاعدگی سے ان محفلوں میں شرکت شروع کر دی جس سے انھیں اپنے نظریات وضع کرنے میں مدد ملی

یہ عباسی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا،، عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کا دور،، کتب خانوں، علمی بحثوں، اور بیت الحکمہ کا دور تھا،، یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر سے علوم و فنون عربی زبان میں ترجمہ ہو رہے تھے،، اور مسلم دنیا نت نئے نظریات سے روشناس ہو رہی تھی۔


مسلمانوں نے  حال ہی میں چینیوں سے کاغذ بنانے کا کارآمد فن سیکھا تھا، جس 
نے علم و دانش کے میدانوں میں انقلاب بپا کر دیا۔ نوجوان جاحظ نے اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مختلف و متنوع موضوعات پر ایک کے بعد ایک تصنیف پیش کرنا شروع کر دی تھی۔

جلد ہی ان کی شہرت دور و نزدیک تک پہنچ گئی،، یہاں تک کہ خود عباسی خلیفہ مامون الرشید بھی ان کے قدردانوں میں شامل ہو گئے،، بعد میں خلیفہ المتوکل نے انھیں اپنے بچوں کا استاد  بھی مقرر کر دیا۔
احظ نے سائنس، جغرافیہ، فلسفہ، و نحو اور علم البیان جیسے کئی موضوعات پر لکھا،، اس زمانے میں لکھی گئی بعض فہرستوں میں ان کی کتابوں کی تعداد دو سو کے قریب بتائی گئی ہے،، تاہم ان میں سے صرف ایک تہائی محفوظ رہ سکی ہیں۔

جاحظ کی 'کتاب البخلاء'   ّبخیلوں کی کتاب  نویں صدی کے عرب معاشرے کا زندہ 
مرقع ہے جس میں انھوں نے متعدد لوگوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کی ہیں۔


جانوروں کا انسائیکلوپیڈیا

یوں تو جاحظ نے دو سو سے زائد کتابیں تحریر کیں،، جن میں سے ارتقا کے سلسلے میں 'کتاب الحیوان' سب سے زیادہ دلچسپ ہے،، اس انسائیکلوپیڈیائی کتاب میں انھوں نے ساڑھے تین سو جانوروں کا احوال بیان کیا ہے۔ ویسا ہی احوال جو آج آپ کو وکی پیڈیا پر مل جاتا ہے۔
اسی کتاب میں جاحظ نے چند ایسے تصورات پیش کیے جو حیرت انگیز طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے ملتے ہیں۔ ان نظریات کو  تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

بقا کی جدوجہد


جاحظ لکھتے ہیں کہ ہر جاندار ہر وقت بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے،، جانور زندہ رہنے کے لیے خود سے چھوٹے جانوروں کو کھا جاتے ہیں،، مگر خود بڑے جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں،، یہ جدوجہد نہ صرف جانوروں کی مختلف نسلوں کے درمیان پائی جاتی ہے بلکہ ایک ہی نسل کے جانور بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔

ایک نسل کی دوسری نسل میں تبدیلی

جاحظ اس بات کے قائل تھے جانوروں کی ایک نسل مختلف عوامل کی وجہ سے دوسری نسل میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ماحولیاتی عوامل کا اثر

جاحظ کا خیال تھا کہ خوراک، ماحول اور پناہ گاہ ایسے عوامل ہیں جو جانوروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انھی کے زیرِ اثر جانوروں کی خصوصیات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں،، یہ خصوصیات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور جانور بتدریج اپنے ماحول میں زیادہ بہتر طریقے سے ڈھلنے لگتا ہے،، اس طرح بہتر خصوصیات والے جانور بقا کی دوڑ میں کامیاب رہتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں: 'جانور اپنی بقا کی مسلسل جدوجہد میں مگن ہیں اور وہ ہر وقت خوراک حاصل کرنے،، کسی کی خوراک بننے سے بچنے،، اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔'

کہلایا (survival of the fittest) یہ وہی نظریہ ہے جو بعد میں 'بقائے اصلح

جاحظ کے ان نظریات کا اثر بعد میں آنے والے مسلمان مفکرین پر بھی ہوا،، چنانچہ ہمیں ان کی بازگشت فارابی،  رومی، البیرونی،ابن العربی، ابنِ خلدون اور دوسرے حکما کے ہاں ملتی ہے

علامہ اقبال نے بھی جاحظ کا ذکر کیا ہے،، اپنے خطبات کے مجموعے 'ری کنسٹرکشن آف ریلیجیئس تھاٹ ان اسلام' (اسلامی مذہبی فکر کی تشکیلِ نو) میں لکھتے ہیں کہ 'یہ جاحظ تھا جس نے نقلِ مکانی اور ماحول کی وجہ سے جانوروں کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔'


ارتقا کے بارے میں مسلمانوں کے یہ تصورات 19ویں صدی کے یورپ میں خاصے عام تھے،، حتیٰ کہ ڈارون کے ایک ہم عصرجان ولیم ڈریپر نے 1878 میں نظریۂ ارتقا کو 'محمڈن تھیوری آف ایوولوشن' یعنی 'مسلمانوں کا نظریۂ ارتقا' سے موسوم کیا تھا۔



جاحظ کا یہ اعزاز ہے کہ جو بات 19ویں صدی میں ڈارون کو سوجھی یا جاحظ کے نظریات کو فالو کیا، اس کی طرف وہ ایک ہزار سال قبل ہی اشارہ کر چکے تھے۔

وفات


علم و دانش اور کتابوں سے عشق جاحظ کی موت کا سبب بھی بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 92 سال کی عمر میں شیلف سے ایک کتاب نکالتے ہوئے بھاری بھرکم شیلف ان کے اوپر آ گرا اور یوں اسلامی تاریخ کا یہ یکتا دانشور کتابوں ہی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔



پاک اردو ٹیوب Princess of Pixel

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
جدید تر اشاعت
»
Previous
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں