اہم خبریں

clean-5

ہماری سوشل پروفائلز

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

سوشل پروفائلز

Misc

Technology

کومنٹس

» » ایک انڈین شہری وزیر اعظم بننے کے لیے پاکستان کیسے آیا۔۔؟

سن 1956  جولائی کا مہینہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے،،کتاب پاکستان کرونیکل ( عقیل عباس جعفری) میں 31 جولائی کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس روز وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو ان کے منصب سے ہٹانے کے لیے سازشیں اپنے  عروج پر پہنچ گئیں تھیں، اور وہ سیاسی طور تنہائی کا شکار ہو چکے تھے


وزیر اعظم جن حالات کا شکار ہو چکے تھے وہ کوئی فوری نوعیت کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ اس سے قبل 13 جولائی کو ایک ایسا واقعہ پیش آ چکا تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ پر حکومت کا اختیار متزلزل ہو کر رہ گیا تھا

اُس روز سیکریٹری وزارت داخلہ اور کمشنر کراچی  نے خفیہ پولیس کے دفتر پر چھاپہ مار کر وزرا اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنے والے آلات برآمد کیے تھے،، اس واقعے نے سیاسی استحکام کو بُری طرح متاثر کیا اور ملک کی سیاسی قیادت اور بیوروکریسی کو سیڑھی بنا کر ایوان اقتدار میں جگہ بنانے والے طبقے کے درمیان پہلے موجود خلیج میں مزید اضافہ کر دیا۔

اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نت نئی ترکیبیں آزمائی جانے لگیں،، ان میں ایک ترکیب انتخابات کے التوا کی بھی تھی،، جس کی سب سے زیادہ ضرورت سابق وزیر داخلہ اور اُس وقت کے صدر میجر جنرل (ریٹائرڈ) سکندر مرزا محسوس کرتے تھے،، سکندر مرزا نے ون یونٹ کی وجہ سے بے چینی کے ابھرتے ہوئے جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا


اگلے کچھ عرصے کے دوران سکندر مرزا چوہدری محمد علی کے بعد ان کے جانشین حسین شہید سہروردی کو بھی گھر بھیجنے میں کامیاب ہو چکے تھے، اور اب ان کے سامنے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کے 
علاوہ وزیر اعظم فیروز خان نون سے نجات کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے انھوں نے سابق ریاست قلات کے حکمران میر احمد یار خان کو اعتماد میں لیا

’میں نے نواب آف بھوپال کو بلا لیا ہے،، وہ وزیر اعظم بن جائیں گے،، میں تو صدر ہوں ہی، بعد  میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

میجر جنرل سکندر مرزا نے خان آف قلات میر احمد یار خان کے کان میں کہا۔

’بس، تم کوئی ایسی تدبیر سوچو کہ یہ سب کام بغیر کسی رکاوٹ کے انجام پا جائیں۔‘

خان آف قلات اور محمد علی جناح
اور اگلے ہی دن نواب آف بھوپال سر حمید اللہ خان پاکستان کے دارالحکومت کراچی پہنچگۓ

خان آف قلات کی کتاب ’انسائیڈ بلوچستان‘ کے مطابق اس زمانے میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خان اور ایک برس پہلے تک ملک کے وزیر اعظم اور مشرقی پاکستان کے قد آور رہنما حسین شہید سہروردی حزبِ اختلاف کی قیادت کر رہے تھے

قوم آئندہ عام انتخابات کے لیے منتظر تھی اور نوکر شاہی کے ذریعے ایوان اقتدار میں جگہ بنا لینے والے صدر مملکت سکندر مرزا خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ ان بڑے راہنماؤں کے مقابلے میں ان کا کام نہیں ہو گا،۔

اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سکندر مرزا نے ایک منصوبہ ترتیب دیا جس میں ایک کردار نواب آف بھوپال کو ایک خان آف قلات کو ادا کرنا تھا۔

یہ 1957 کی گرمیوں کی بات ہے جب موسم کی شدت کے باعث بلوچستان کے صحرا تانبے کی طرح تپ رہے تھے، بالکل اسی طرح بلوچستان کی سابق ریاست قلات کے عوام،، سرداروں اور بزرگوں کے دلوں میں بے چینی کی لہریں کروٹیں لے رہی تھیں، اور وہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ آنے والے دنوں میں قلات کی مقامی روایات اور بلوچ ثقافت کی محض یادیں ہی باقی رہ جائیں گی جن کے تحفظ کی تحریری یقین دہانی خود قائد اعظم نے اس خطے کے عوام کو کرائی تھی۔

اس خطرے یا بالفاظ دیگر ان تحفظات کی بنیاد ون یونٹ کا وہ نظام تھا جسے دوام دینے کے لیے سرکاری حکام بعض اوقات کچھ ایسا طرز عمل اختیار کر لیتے جس سے مقامی آبادی پریشانی محسوس کرتی۔ خان آف قلات اپنی نجی محفلوں میں اکثر اس خیال کا اظہار کیا کرتے۔

کچھ عرصے بعد کے موسم سرما کی وہ ایک اُداس سی شام تھی جس میں خان آف قلات سے قائد اعظم کے ایک جونیئر ساتھی مرزا جواد بیگ کی ملاقات ہوئی۔ان دنوں کراچی میں سردی خوب پڑا کرتی تھی جس سے بچنے کے لیے لوگ اوور کوٹ بھی پہن لیا کرتے۔

اس شام خان آف قلات اوور کوٹ میں تھے، ان کے سر پر ٹوپی تھی جو انھوں نے اتار کر ایک طرف رکھی اور دکھ بھرے لہجے میں کہا ’دیکھ لینا مرزا! چور 
دروازوں سے آنے والوں کی ہوس اقتدار ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔‘


 Hussain Shaheed Suhrawardy
مرزا جواد بیگ نے ان دنوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہی دن تھے جب قلات اور بلوچستان کے بعض دیگر شہروں میں مقامی عمائدین اور قبائلی سرداروں کے درمیان مشاورت زوروں پر تھی اور خان آف قلات محسوس کرتے تھے کہ بلوچستان کے لوگوں کے اطمینان کے لیے اگر جلد ہی بامعنی اقدامات نہ کیے گئے توکسی بڑی پریشانی کو ٹالنا مشکل ہو جائے گا۔

دن گزرتے گئے اور بلوچستان کے صحراؤں کی دہکا دینے والی گرمی میں اعتدال پیدا ہوا۔

عین ان ہی دنوں میں قبائلی عمائدین کے ایک وفد نے قلات میں خان سے ملاقات کی, اور انھیں اپنے تحفظات اور شکایات کے بارے میں چھ نکاتی میمورنڈم پیش کیا, جس میں انھیں یاد دہانی کرائی گئی کہ 1948 میں ریاست قلات کے پاکستان میں انضمام کے وقت قائد اعظم نے آپ کو یقین دہائی کرائی تھی, کہ مقامی ثقافت اور روایات کا احترام کیا جائے گا, اورانھیں برقرار رکھا جائے گا لیکن بدقسمتی سے اب صورت حال اس کے برعکس ہے۔

اس طرح کی ملاقاتو ں کا سلسلہ آنے والے دنوں تک جاری رہا،، یہاں تک کہ آٹھ اکتوبر 1957 کو بلوچستان کے 44 قبائلی سرداروں کا ایک وفد خان آف قلات کی قیادت میں صدر اسکند ر مرزا سے ملا اور انھیں وہ یاداشت پیش کی جس کی تیاری کا عمل کئی ماہ قبل شروع ہو چکا تھا۔

سکندر مرزا نے ان مطالبات پر ہمدردی سے غور کرنے کا وعدہ کیا، اور خان آف قلات کوکچھ بڑے اقدامات کے لیے قانونی مشاورت کرنے کی ہدایت کی، وفد اٹھ کر جانے لگا تو صدر اسکندر مرزا نے خان آف قلات سے درخواست کی کہ وہ ان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے ان کے ہاں قیام کریں، اس طرح خان آف قلات آئندہ پندرہ روز یعنی سات سے 20 اکتوبر 1957ء تک اُن کے مہمان کی حیثیت سے ایوان صدر میں مقیم رہے۔

یہی وہ پندرہ دن ہیں جن میں سکندر مرزا کے ذہن میں پرورش کرنے والے منصوبے پر عمل درآمد کے بظاہر آثار پیدا ہونے لگے۔

سکندر مرزا نے اپنی بات کا آغاز خان آف قلات کی دکھتی رگ یعنی ان کی سابق ریاست اور ون یونٹ کے ساتھ اس کے تعلقات سے کیا، اسکندر مرزا نے خان آف قلات سے برطانیہ کے ایک بڑے قانونی ماہرلارڈ میک نایئر کا ذکر کیا اور مشورہ دیا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور مشورہ کریں کہ سابق ریاست قلات کو ون یونٹ سے علیحدہ کرنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟

خان آف قلات کو یہ مشورہ مناسب لگا اور وہ لندن جانے پر آمادہ ہو گئے( اس سفر کے لیے سکندر مرزا نے خان اعظم کو کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھی فراہم کیا)۔

سکندر مرزا نے جب محسوس کیا کہ خان آف قلات اب شیشے میں مکمل طور پر اتر چکے ہیں تو انھوں نے بات آگے بڑھائی۔

خان آف قلات کی کتاب ’انسائیڈ بلوچستان‘ میں تحریر ہے کہ سکندر مرزا نے کہا کہ ’انتخابات سر پر آ چکے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں آئندہ مدت کے لیے بھی صدر بننے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن انتخابی مہم چلانے کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے، اس سلسلے میں اگر آپ اپنی طرف سے پچاس لاکھ روپے کا عطیہ دے دیں تو آسانی ہو جائے گی۔‘

اس سے پہلے کہ خان آف قلات کچھ جواب دیتے ہیں سکندر مرزا نے اپنے دل کی پوری بات ان کے سامنے رکھ دی، اور کہا کہ آپ بہاول پور اور خیر پور کی سابق ریاستوں کے حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر ان سے بھی بالترتیب چالیس اور دس لاکھ روپے انھیں دلوا دیں، اس کے جواب میں وہ صدر بنتے ہی ان کی ریاست( قلات) کے علاوہ بہاول پور اور خیر پورکی ریاستوں کو بھی ون یونٹ سے الگ کر دیں گے۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس ملاقات میں آنے والے دنوں میں سابق ریاستوں کی قانونی پوزیشن اور مستقبل کے انتخابات کے سلسلے میں امکانی مشکلات پر تفصیل سے گفتگو کی گؑی ہو گی۔








پاک اردو ٹیوب Princess of Pixel

ہ۔ یہ ایک فرضی تحریر ہے یہاں پر آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں۔
«
Next
جدید تر اشاعت
»
Previous
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

اپنا تبصرہ تحریر کریں توجہ فرمائیں :- غیر متعلقہ,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, ادارہ ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز ادارہ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں